
utar raha raat ka naqab dheeray dheeray
اتر رہا ہے رات کا نقاب دھیرے دھیرے
نکل رہا ہے اک نیا آفتاب دھیرے دھیرے
سامنے آنے لگی ہے اپنوں کی ساری چال بازی
مل رہا ہے سوالوں کا جواب دھیرے دھیرے
جو من میں ہے وہ جا کے پوچھ ہی لوں نا
کیوں نکالتے ہو پنکھڑی گلاب دھیرے دھیرے
بیکار کی فکر وردہ اور پرانی باتوں کا غم
کر دیتے ہے انسان کو خراب دھیرے دھیرے
بہا کر آرہا کاشی کھو تم بھی نہیں بن سکتے
لے ہی لیتی ہے فطرت حساب دھیرے دھیرے
جوش جوش میں آ کر کوئی فیصلہ نہ لییو ‘سوز’
کے سرد پڑ جاتی ہے آتش اضطراب دھیرے دھیرے
سوز دھلوی